شاعری

منصب عشق سے کچھ عہدہ برا میں ہی ہوا

منصب عشق سے کچھ عہدہ برا میں ہی ہوا تیرے کوچے میں سرافراز وفا میں ہی ہوا کچھ چلی تو تیرے عاشق سے ہی تلوار چلی جب ہوئی جنگ بپا مرد وغا میں ہی ہوا گر کھلی تجھ پہ ہی خوشبوئے نہفتہ کوئی تیرا محرم بھی تو اے باد صبا میں ہی ہوا وہ جو بے اذن اڑا لاتا تھا خوشبو تیری پہلے پہلے تو وہ گستاخ ...

مزید پڑھیے

یہ کج ادائی یہ غمزہ ترا کبھی پھر یار!

یہ کج ادائی یہ غمزہ ترا کبھی پھر یار! کہ تیرا شہر نیا اور میں مسافر یار! تو اور کچھ نہ سہی، دوست تو ہے آخر یار! دکھی رہا ہے بہت آج تیرا شاعر یار! کہاں کا لمس، کہاں کی ہوس، کہاں کا وصال تڑپ رہا ہوں تری ہمدمی کی خاطر یار! سنبھل بھی جاتا تھا دل تیرے ہجر میں، یعنی رہا ہوں میں بھی تری ...

مزید پڑھیے

یہ کیسی آیۂ معجز نما نکل آئی

یہ کیسی آیۂ معجز نما نکل آئی ہوائے دشت سے باد صبا نکل آئی بچھا ہوا تھا نگاہوں میں فرش استسقا زمین دل پہ نبی کی دعا نکل آئی کوئی دشا نظر آتی نہیں تھی تا بہ فلک زمیں سے تا بہ فلک اک دشا نکل آئی پہاڑ ہو گئی تنہائی، اور پھر اک روز اسی پہاڑ سے غار حرا نکل آئی گنی چنی ہوئی گھڑیوں ...

مزید پڑھیے

دل کو تمہارے رنج کی پروا بہت رہی

دل کو تمہارے رنج کی پروا بہت رہی تلخیٔ عشق اب کے گوارا بہت رہی جس زندگی کو چھوڑ کے آیا ہوں یوں شتاب اس زندگی کی مجھ کو تمنا بہت رہی دل کے ورق پہ صاف لکھی تھی جو ایک سطر کاغذ پہ آ گئی تو بریدہ بہت رہی بس ایک زخم سونپ کے مجھ سے کیا گریز دل کو تو اس مژہ سے تمنا بہت رہی اک ہجر بے پناہ ...

مزید پڑھیے

جو بھی تخت پہ آ کر بیٹھا اس کو یزداں مان لیا

جو بھی تخت پہ آ کر بیٹھا اس کو یزداں مان لیا آپ بہت ہی دیدہ ور تھے موسم کو پہچان لیا جب بھی تھکن نے کاٹ کے پھینکا دشت گزیدہ قدموں کو جلتی ریت پہ کھال بچھائی دھوپ کا خیمہ تان لیا اپنی انا کا باغی دریا وصل سے کیا سرشار ہوا اس کا نشاں بھی ہاتھ نہ آیا سارا سمندر چھان لیا قسمت کے ...

مزید پڑھیے

کوئی بھی لفظ عبرت آشنا میں پڑھ نہیں سکتا

کوئی بھی لفظ عبرت آشنا میں پڑھ نہیں سکتا بصیرت کو نہ جانے کیا ہوا میں پڑھ نہیں سکتا سمندر نے ہوا کے نام اک خط ریگ ساحل پر کسی مردہ زباں میں لکھ دیا میں پڑھ نہیں سکتا یہ انسانوں کے ماتھے تو نہیں کتبے ہیں قبروں کے ہر اک چہرے پہ اس کا مرثیہ میں پڑھ نہیں سکتا زمین و آسماں سورج ستارے ...

مزید پڑھیے

غلام وہم و گماں کا نہیں یقیں کا ہوں

غلام وہم و گماں کا نہیں یقیں کا ہوں زمین میرا ستارہ ہے میں زمیں کا ہوں وہ اور ہوں گے پرستار تخت والوں کے میں جاں نثار شہ بوریا نشیں کا ہوں سواد روح کے منظر مدینہ جیسے ہیں خیال آتا ہے میں بھی یہیں کہیں کا ہوں سنو کہ ورثے میں بٹتی ہوئی امانت ہوں میں حرف صدق لب صادق و امیں کا ...

مزید پڑھیے

حرف آغاز صدائے کن فکاں تھا اور میں

حرف آغاز صدائے کن فکاں تھا اور میں رقص میں سورج تھا پیلا آسماں تھا اور میں گر گئی مندری زمیں کی دھوپ کے تالاب میں جستجو میں اک جہان بے نشاں تھا اور میں روشنی کے دائرے تھے ٹوٹتے بنتے رہے لفظ کی تولید کا زریں سماں تھا اور میں اک شعاع سے چھانٹنا تھے رنگ خوشبو ذائقے ایک پیچیدہ ...

مزید پڑھیے

ہر ایک چیز میسر سوائے بوسہ ہے

ہر ایک چیز میسر سوائے بوسہ ہے اور اپنے غم کا سبب التوائے بوسہ ہے بھلے تو لگتے ہیں انکار بوسہ پر بھی یہ ہونٹ کبھی تو یہ کہو ''یہ لب برائے بوسہ'' ہے مرے قریب سے ہونٹوں کو مت گزار اتنا کہ چل رہی مرے سر میں ہوائے بوسہ ہے چھپایا کر نہیں ہونٹوں کو مسکراتے ہوئے یہ جائے شرم نہیں ہے یہ ...

مزید پڑھیے

حسب فرمان امیر قافلہ چلتے رہے

حسب فرمان امیر قافلہ چلتے رہے پا بجولاں دیدۂ و لب دوختہ چلتے رہے بے بصیرت منزلیں گرد سفر ہوتی رہیں اور ہم بے مقصد و بے مدعا چلتے رہے فصل گل کی چاپ تھی اس طبع نازک پر گراں تھا سفر خوشبو کا غنچے بے صدا چلتے رہے کاجلی راتوں میں سورج کے حوالے سو گئے اقتباس اپنے لہو سے لے لیا چلتے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 42 سے 4657