سائے جو سنگ راہ تھے رستے سے ہٹ گئے
سائے جو سنگ راہ تھے رستے سے ہٹ گئے دل جل اٹھا تو خود ہی اندھیرے سمٹ گئے دن بھر جلے جو دھوپ کے بستر پہ دوستو سورج چھپا تو چادر شب میں سمٹ گئے وہ کرب تھا کہ دل کا لہو آنچ دے اٹھا ایسی ہوا چلی کہ گریبان پھٹ گئے وہ فکر تھی کہ دیدہ و دل مضمحل ہوئے وہ گرد تھی کہ گھر کے در و بام اٹ ...