شاعری

سائے جو سنگ راہ تھے رستے سے ہٹ گئے

سائے جو سنگ راہ تھے رستے سے ہٹ گئے دل جل اٹھا تو خود ہی اندھیرے سمٹ گئے دن بھر جلے جو دھوپ کے بستر پہ دوستو سورج چھپا تو چادر شب میں سمٹ گئے وہ کرب تھا کہ دل کا لہو آنچ دے اٹھا ایسی ہوا چلی کہ گریبان پھٹ گئے وہ فکر تھی کہ دیدہ و دل مضمحل ہوئے وہ گرد تھی کہ گھر کے در و بام اٹ ...

مزید پڑھیے

لہجے کا رنگ لفظ کی خوشبو بھی دیکھ لے

لہجے کا رنگ لفظ کی خوشبو بھی دیکھ لے آ مجھ سے کر کلام مجھے تو بھی دیکھ لے میں چودھویں کا چاند سمندر ترا بدن میری کشش کا بولتا جادو بھی دیکھ لے کھلتا ہوں تیرے رخ کی سجل چاندنی کے پاس پہچان لے مجھے مری خوشبو بھی دیکھ لے تو خار زار اور میں ابر برہنہ پا میرے سفر کا کرب کبھی تو بھی ...

مزید پڑھیے

کیوں جل بجھے کہیں تو گرفتار بولتے

کیوں جل بجھے کہیں تو گرفتار بولتے زنداں میں چپ رہے تو سر دار بولتے گھر گھر یہاں تھا گوش بر آواز دیر سے آتی صدا تو سب در و دیوار بولتے ہوتا تمہارے خون کا دریا جو موجزن طوفاں سمندروں میں بہ یک بار بولتے دیتا تمہارا نطق دہائی تو فطرتاً لوح و قلم کے بام سے فن کار بولتے تم بولتے ...

مزید پڑھیے

مہکا ہے زخم زخم ہوائیں ہیں منچلی

مہکا ہے زخم زخم ہوائیں ہیں منچلی برسا ہے تیری یاد کا ساون گلی گلی دیوار و در تو راہ میں حائل نہ ہو سکے آگے بڑھوں تو پاؤں پکڑتی ہے بیکلی اک ماہتاب تھا کہ پگھلتا چلا گیا اک شمع تھی کہ ساتھ مرے رات بھر جلی وہ روشنی جو تو نے ہمیں دی تھی دن ڈھلے وہ روشنی بھی ہم نے لٹا دی گلی گلی یہ ...

مزید پڑھیے

سینے کی آگ آتش محشر ہو جس طرح

سینے کی آگ آتش محشر ہو جس طرح یوں موجزن ہے غم کہ سمندر ہو جس طرح زخموں سے یوں ہے جسم کی دیوار ضو فگن شعلوں کا رقص شاخ شجر پر ہو جس طرح بادل کا شور ہانپتے پیڑوں کی بے بسی یوں دیکھتا ہوں میرے ہی اندر ہو جس طرح اڑتے ہوئے غبار میں آنکھوں کا دشت بھی کچھ یوں لگا کہ خشک سمندر ہو جس ...

مزید پڑھیے

اب کیا گلہ کریں کہ مقدر میں کچھ نہ تھا

اب کیا گلہ کریں کہ مقدر میں کچھ نہ تھا ہم غوطہ زن ہوئے تو سمندر میں کچھ نہ تھا دیوانہ کر گئی تری تصویر کی کشش چوما جو پاس جا کے تو پیکر میں کچھ نہ تھا اپنے لہو کی آگ ہمیں چاٹتی رہی اپنے بدن کا زہر تھا ساغر میں کچھ نہ تھا دیکھا تو سب ہی لعل و جواہر لگے مجھے پرکھا جو دوستوں کو تو ...

مزید پڑھیے

تنہائی کے شعلوں پہ مچلنے کے لیے تھا

تنہائی کے شعلوں پہ مچلنے کے لیے تھا کیا مجھ سا جواں آگ میں جلنے کے لیے تھا کیا کاتب تقدیر سے زخموں کی شکایت جو تیر تھا ترکش میں سو چلنے کے لیے تھا جلتا ہے مرے دل میں پڑا داغ کی صورت جو چاند سر عرش نکلنے کے لیے تھا اس جھیل میں تجھ سے بھی کوئی لہر نہ اٹھی اور تو مری تقدیر بدلنے کے ...

مزید پڑھیے

کوئی مقام نہیں حد اعتبار کے بعد

کوئی مقام نہیں حد اعتبار کے بعد کہاں میں سجدہ کروں آستان یار کے بعد اٹھوں تو جاؤں کہاں جائے پر بہار کے بعد کہیں پناہ نہیں ان کی رہ گزار کے بعد کہاں کا عزم ہے اے دل حصول کار کے بعد اب اور بھی کوئی کعبہ ہے کوئے یار کے بعد تباہ ہم ہوئے بیم و رجا میں آخر کار کچھ انتظار سے پہلے کچھ ...

مزید پڑھیے

وہ پردہ زینت در کے سوا کچھ اور نہیں

وہ پردہ زینت در کے سوا کچھ اور نہیں ہمارے حسن نظر کے سوا کچھ اور نہیں سراغ کاہکشاں اہل دل کو مل ہی گیا تمہاری راہ گزر کے سوا کچھ اور نہیں نہ جانے کون سا ایفائے عہد کا دن ہو تمہیں تو شام و سحر کے سوا کچھ اور نہیں مرادیں عشق میں سب کو ملیں مگر مجھ کو نصیب درد جگر کے سوا کچھ اور ...

مزید پڑھیے

کس لطف سے محفل میں بٹھائے گئے ہم لوگ

کس لطف سے محفل میں بٹھائے گئے ہم لوگ کیا راز تھا خاطر میں جو لائے گئے ہم لوگ شمعیں تری یادوں کی جلائے گئے ہم لوگ اشکوں کے خزانے تھے لٹائے گئے ہم لوگ سر نقش کف پا پہ جھکائے گئے ہم لوگ یوں رسم وفا ان سے بنائے گئے ہم لوگ غیروں نے مرتب کئے افسانے ستم کے افسانوں کے عنوان بنائے گئے ہم ...

مزید پڑھیے
صفحہ 1026 سے 4657