شاعری

زہر ان کے ہیں مرے دیکھے ہوئے بھالے ہوئے

زہر ان کے ہیں مرے دیکھے ہوئے بھالے ہوئے یہ تو سب اپنے ہیں زیر آستیں پالے ہوئے ان کے بھی موسم ہیں ان کے بھی نکل آئیں گے ڈنک بے ضرر سے اب جو بیٹھے ہیں سپر ڈالے ہوئے چاک سی کر جو ہرے موسم میں اٹھلاتے پھرے خشک سالی میں وہ تیرے چاہنے والے ہوئے بڑھ کے جو منظر دکھاتے تھے کبھی سیلاب ...

مزید پڑھیے

شعلہ سا کوئی برق نظر سے نہیں اٹھتا

شعلہ سا کوئی برق نظر سے نہیں اٹھتا اب کوئی دھواں دل کے نگر سے نہیں اٹھتا وہ رونق کاشانۂ دل بجھ سی گئی ہے اب شور کوئی اس بھرے گھر سے نہیں اٹھتا کب طاقت شوریدہ سری سر کو جو ٹکرائیں وہ ضعف ہے اب سر ترے در سے نہیں اٹھتا اس جنبش مژگاں کا ہوں شرمندۂ احساں یہ بار گراں اپنی نظر سے نہیں ...

مزید پڑھیے

کیا ملا اے زندگی قانون فطرت سے مجھے

کیا ملا اے زندگی قانون فطرت سے مجھے کچھ ملا حق بھی تو باطل کی وساطت سے مجھے میرے مالک میں تکبر سے نہیں ہوں سر بلند سر جھکا اتنا ہوئی نفرت اطاعت سے مجھے میں وہ عاشق ہوں کہ خود ہی چومتا ہوں اپنے ہاتھ کب بھلا فرصت ملی اپنی رقابت سے مجھے میں وہ ٹوٹا آئنہ ہوں آپ اپنے سامنے جس میں ہول ...

مزید پڑھیے

حال دل کچھ جو سر بزم کہا ہے میں نے

حال دل کچھ جو سر بزم کہا ہے میں نے وہ یہ سمجھے ہیں کہ الزام دیا ہے میں نے منہ تو پھیرا ہے کبھی یہ بھی تو سوچا ہوتا تمہیں چاہا ہے تمہیں پیار کیا ہے میں نے لا سکو گے سر پیشانی وہ تابانی و نور تمہیں اشعار میں جو بخش دیا ہے میں نے کیا کہیں سیکھ لیے ہیں نئے انداز فریب باندھتے ہو نئے ...

مزید پڑھیے

گھرتے بادل میں تنہائی کیسی لگتی ہے

گھرتے بادل میں تنہائی کیسی لگتی ہے ملن کا موسم اور جدائی کیسی لگتی ہے سونے من کے تاروں سے جب باتیں ہوتی ہوں دوجے آنگن کی شہنائی کیسی لگتی ہے دل کی چوٹ ابھر آئے اور زخم ہرے ہو جائیں یادوں کی چلتی پروائی کیسی لگتی ہے تم کو شہر خیال میں رہنا کیسا لگتا ہے وہ بستی جو دل نے بسائی ...

مزید پڑھیے

ترے تغافل سے ہے شکایت نہ اپنے مٹنے کا کوئی غم ہے

ترے تغافل سے ہے شکایت نہ اپنے مٹنے کا کوئی غم ہے یہ سب بظاہر بجا ہے لیکن یہ آنکھ کیوں آج میری نم ہے نئی امنگوں کو ساتھ لے کر رواں ہوں پھر جادۂ وفا پر مگر ہے احساس نا مرادی کہ سہما سہما سا ہر قدم ہے مری امیدوں کو روند کر اب مری خوشی کی ہے تم کو پروا یہ کیا نیا روپ تم نے دھارا یہ کیا ...

مزید پڑھیے

مرے سفر کی حدیں ختم اب کہاں ہوں گی

مرے سفر کی حدیں ختم اب کہاں ہوں گی کہ منزلیں بھی تو آخر رواں دواں ہوں گی یہ فاصلے جو ابھی طے ہوئے ہیں کہتے ہیں یہ قربتیں ترے احساس پر گراں ہوں گی جو دن کو رنگ لگیں اور شب کو پھول بنیں وہ صورتیں کہیں ہوں گی مگر کہاں ہوں گی وہ ہاتھ روٹھ گئے اور وہ ساتھ چھوٹ گئے کسے خبر تھی کہ اتنی ...

مزید پڑھیے

میں ہم نفساں جسم ہوں وہ جاں کی طرح تھا

میں ہم نفساں جسم ہوں وہ جاں کی طرح تھا میں درد ہوں وہ درد کے عنواں کی طرح تھا تو کون تھا کیا تھا کہ برس گزرے پہ اب بھی محسوس یہ ہوتا ہے رگ جاں کی طرح تھا جس کے لیے کانٹا سا چبھا کرتا تھا دل میں پہلو میں وہ آیا تو گلستاں کی طرح تھا اک عمر الجھتا رہا دنیا کی ہوا سے کیا میں بھی ترے ...

مزید پڑھیے

بہ قدر حوصلہ کوئی کہیں کوئی کہیں تک ہے

بہ قدر حوصلہ کوئی کہیں کوئی کہیں تک ہے سفر میں راہ و منزل کا تعین بھی یہیں تک ہے نہ ہو انکار تو اثبات کا پہلو بھی کیوں نکلے مرے اصرار میں طاقت فقط تیری نہیں تک ہے ادھر وہ بات خوشبو کی طرح اڑتی تھی گلیوں میں ادھر میں یہ سمجھتا تھا کہ میرے ہم نشیں تک ہے نہیں کوتاہ دستی کا گلہ اتنا ...

مزید پڑھیے

نمایاں اور بھی رخ تیری بے رخی میں رہے

نمایاں اور بھی رخ تیری بے رخی میں رہے سپردگی کے بھی پہلو کشیدگی میں رہے نظر اٹھی تو اٹھا شور اک قیامت کا نہ جانے کیسے یہ ہنگامے خامشی میں رہے ہوائے شہر غریبی کی کیفیت تھی عجیب نشے میں رہ کے بھی ہم اپنے آپ ہی میں رہے پکارتے رہے کیا کیا نہ دل کے ویرانے ہم ایسے شہر میں الجھے تھے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 1006 سے 4657