پھر کائنات یاد پہ لہرا گئی ہیں وہ

پھر کائنات یاد پہ لہرا گئی ہیں وہ
سینے میں ایک آگ سی سلگا گئی ہیں وہ


اللہ رے چشم شوخ کا نظارۂ حسیں
دل میں نظر کے ساتھ ہی خود آ گئی ہیں وہ


اے آرزوئے دید نگاہوں کا کیا قصور
اٹھتے ہی ان کے بام پہ شرما گئی ہیں وہ


آئے گا پھر سے آنکھ میں ساون شباب پر
لاہور سے سنا ہے کہ اکتا گئی ہیں وہ


روتی ہے آرزو مری سینے پہ رکھ کے ہاتھ
شاید نظر کے تیر سے برما گئی ہیں وہ


الطافؔ آ رہی تھیں اٹھائے ہوئے نقاب
پاتے ہی مجھ کو راہ میں گھبرا گئی ہیں وہ