پھر بڑھا جوش جنوں صورت سیلاب مجھے
پھر بڑھا جوش جنوں صورت سیلاب مجھے
پھر کہیں غرق نہ کر دے کوئی گرداب مجھے
میں وہ ہوں آپ جو ہو اپنی تباہی کا سبب
کر گئی کثرت گریہ مری غرقاب مجھے
چشم میں اشک خلش دل میں جگر میں ٹیسیں
اف یہ کیا چیز کیا کرتی ہے بیتاب مجھے
میری امید میں ہے یاس کی صورت مضمر
میری ہستی ہے فنا مثل خط آب مجھے
نیچی نظریں ہوں زباں بند ہو غیروں کو سلام
ان کی محفل کے تو آئیں گے نہ آداب مجھے
سوز فرقت تپش غم کے سبب مدت سے
خواب کیا آرزوئے خواب ہوئی خواب مجھے
شومئی بخت سے تنگ آ کے جو دریا میں گرا
موج نے پھینک دیا لا کے لب آب مجھے
کتنا دل سوز ہے طالبؔ ترا افسانۂ غم
وہ تو وہ غیر نظر آتے ہیں بیتاب مجھے