ریحانہ قمر کے تمام مواد

21 غزل (Ghazal)

    گھر سے باہر تھی نہ گھر بیٹھی رہی

    گھر سے باہر تھی نہ گھر بیٹھی رہی سوچ کی دہلیز پر بیٹھی رہی یہ محبت تھی کہ برقی تار پر کوئی چڑیا رات بھر بیٹھی رہی میرا سورج ہی نہیں آیا ادھر میں ستارے اوڑھ کر بیٹھی رہی جانے کس کی آس میں اک فاختہ صحن کی دیوار پر بیٹھی رہی اٹھ گئے اک ایک کر کے سارے لوگ اجڑی محفل میں قمرؔ بیٹھی ...

    مزید پڑھیے

    میں جب بھی یاد کی شمعیں جلا کے رکھتی ہوں

    میں جب بھی یاد کی شمعیں جلا کے رکھتی ہوں یہ میری ضد ہے کہ آگے ہوا کے رکھتی ہوں میں ٹوٹ سکتی ہوں لیکن میں جھک نہیں سکتی شکست ذات میں پہلو انا کے رکھتی ہوں وہ بادباں ہے اگر کشتیٔ محبت کا میں بادبان سے رشتے ہوا کے رکھتی ہوں نہیں ہے گھر میں تری یاد کے علاوہ کچھ تو کس کے سامنے چائے ...

    مزید پڑھیے

    میں اس دل سے نکل کر بام و در تقسیم کرتی ہوں

    میں اس دل سے نکل کر بام و در تقسیم کرتی ہوں کہ خود بے گھر ہوں اور لوگوں میں گھر تقسیم کرتی ہوں نگر والوں میں جب کوتاہ دستی عام ہوتی ہے میں آندھی کی طرح ان میں ثمر تقسیم کرتی ہوں ہواؤں کے لیے کچھ بھی بچا کر میں نہیں رکھتی خزاں رت کی طرح پورا شجر تقسیم کرتی ہوں مرے پاس اس کو دینے ...

    مزید پڑھیے

    سر بزم طلب رقص شرر ہونے سے ڈرتی ہوں

    سر بزم طلب رقص شرر ہونے سے ڈرتی ہوں کہ میں خود پر محبت کی نظر ہونے سے ڈرتی ہوں بچانا چاہتی ہوں اس کو سورج کی تمازت سے مگر میں اس کے رستے کا شجر ہونے سے ڈرتی ہوں کبھی اس کے خیالوں میں نہیں جاتی تھی دریا پر اور اب یہ وقت آیا ہے کہ گھر ہونے سے ڈرتی ہوں اگر یہ سچ ہے خوشبو اور محبت چھپ ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنی ذات نہ اپنے مکاں میں رہتی ہوں

    میں اپنی ذات نہ اپنے مکاں میں رہتی ہوں دھوئیں کا پھول ہوں آتش فشاں میں رہتی ہوں کرم ہے اس کا جو دیتا ہے شکر کے موقعے کرم ہے اس کا جو میں امتحاں میں رہتی ہوں یہ وصل بھی ہے کسی اور جستجو جیسا کسی کے پاس کسی کے گماں میں رہتی ہوں مری بہار ابھی لوٹ کر نہیں آئی میں خشک پیڑ ہوں اور ...

    مزید پڑھیے

تمام