اذیتوں سے نکلنے کا مشورہ دیتی
اذیتوں سے نکلنے کا مشورہ دیتی
میں اس کی تھی تو نہیں پھر بھی حوصلہ دیتی
کسی عذاب سے کم تو نہیں ہے خوش رہنا
دعا کے نام پہ کیوں اس کو بد دعا دیتی
چھپا بھی لیتی مرے بھید کو اگر بالفرض
ہوا کا کیا ہے کوئی اور گل کھلا دیتی
بجا کہ سہل نہ تھا اس کا ہم سفر ہونا
کم از کم اس کو پلٹنے کا راستہ دیتی
جو مجھ سے عشق کے قصے سناتا پھرتا تھا
کہیں وہ ملتا تو میں اس کو آئنہ دیتی
مرے خدا کوئی مصرف تو ہوتا اشکوں کا
فصیل شہر کی تحریر ہی مٹا دیتی
خدا گواہ کہ سر سے جھٹک کے دیکھ لیا
نہیں تھا بس میں وگرنہ اسے بھلا دیتی
میں اس کی خاص عنایت سے بچ گئی ہوں قمرؔ
وگرنہ خلق خدا تو مجھے مٹا دیتی