پلکیں زمیں پہ اپنی بچھاتی ہے چاندنی

پلکیں زمیں پہ اپنی بچھاتی ہے چاندنی
ایسے میں دل ہمارا لبھاتی ہے چاندنی


جب ساتھ چھوڑ دیتا ہے سورج تو اس گھڑی
رستہ مسافروں کو دکھاتی ہے چاندنی


وہ دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں کے شہر میں
ہر سو محبتوں کو سجاتی ہے چاندنی


انسان ہو یا کوئی درندہ زمین پر
سائے میں اپنے سب کو بٹھاتی ہے چاندنی


ہر راز سے کرایا مجھے اس نے آشنا
ہر ایک بات مجھ کو بتاتی ہے چاندنی


وہ بھی ہے مبتلائے محبت مری طرح
ہر رات خود کو خود ہی جلاتی ہے چاندنی


ہم راہ بادلوں کے ہیں بسملؔ کے داغ دل
اپنی ضیا میں ان کو چھپاتی ہے چاندنی