کھویا ہے تو کن خیالوں میں رقیب

کھویا ہے تو کن خیالوں میں رقیب
ان سیہ بالوں یا گالوں میں رقیب


ہاتھ میرا دیکھ کر ان ہاتھوں میں
پڑ گیا آخر سوالوں میں رقیب


کیا بتاؤں شہر والوں کا تمہیں
سب سے اچھا شہر والوں میں رقیب


دوستی گہری تھی پہلے دونوں میں
ہو گئے دو ایک سالوں میں رقیب


چھوڑنے والا ہی تھا اس کو مگر
آ گیا یکسر خیالوں میں رقیب


ہوں مثالوں میں سر فہرست میں
غم تو یہ ہے بے مثالوں میں رقیب


وہ پری حاصل ہوئی تو ہے سبب
جا رہے تو بھی اجالوں میں رقیب


تو نے بسملؔ فتح پائی آخرش
رہ گیا ناکام چالوں میں رقیب