سانوں وی لے چل نال وے
اس سب کے علاوہ بعض نوادر ہمارے ناقص فہم میں آ نہیں سکے، سو بیان سے باہر تو ر ہیں گے ، لیکن بہر حال ، ایبسٹریکٹ آرٹ یعنی تجریدی فنون کی شاخ اسی قبیل کے لیے وضع کی گئی ہے۔۔۔
اس سب کے علاوہ بعض نوادر ہمارے ناقص فہم میں آ نہیں سکے، سو بیان سے باہر تو ر ہیں گے ، لیکن بہر حال ، ایبسٹریکٹ آرٹ یعنی تجریدی فنون کی شاخ اسی قبیل کے لیے وضع کی گئی ہے۔۔۔
تیسرے فریق کی موجودگی میں حافظ حسین احمد اور ڈاکٹر اشرف عباسی کا معاہدہ ہوگیا کہ حافظ حسین احمد تنگ نہیں کریں گے ۔اگلے دن اجلاس شروع ہوا تو حافظ حسین احمد اٹھے اور بولنا چاہا تو ڈاکٹر اشرف عباسی نے موصوف کو غصے سے کہا بیٹھ جاؤ۔
بھارت اس جنگ کو اپنے نام لکھتا ہے کہ اس نے پاکستان کو اپنا اٹوٹ انگ کشمیر نہیں دیا۔ پاکستان اس جنگ کو اپنے شہیدوں کے لہو سے لکھی وہ فتح قرار دیتا ہے جس میں سرحد کے محافظوں نے اس کی زمینی، فضائی اور سمندری سرحدوں کا کامیابی سے دفاع کیا اور دشمن کے لاہور کے جم خانہ میں چائے پینے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر ہونے سے بچایا۔
وقت اور حالات کے ناسازگار ہونے سے آئیڈیلز، اگر بطور آئیڈیلز بھی مرنے لگیں تو دنیا میں کسی قسم کی معمولی سے معمولی تبدیلی بھی انسانوں کی جانب سے رونما نہ ہو۔
2018 میں پاکستان کو 27 نکاتی منصوبہ دیا گیا تھا جس پر پاکستان کو ایک ڈیڈ لائن تک عمل درآمد کرنا تھا۔ پاکستان نے اب تک 24 پر عمل درآمد کر لیا ہے جب کہ 3 باقی ہیں۔ لیکن پھر بھی پاکستان کو کلین چٹ نہیں دی گئی۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کو عالمی طاقتوں کے سیاسی مقاصد کی وجہ سے کلین چٹ نہیں دی جا رہی۔
صرف یہ واقعہ نہیں ، لاہور شہر میں اس طرح کے لفنگے عام ہیں، تہواروں پر فیملیز کا باہر نکلنا دشوار ہوجاتا ہے۔ اپنے والدین یا خاوند کے ساتھ آئی خاتون بھی محفوظ نہیں ہوتی ۔ یہ رجحان خطرناک، افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔
کیا دو گز کپڑے کی بھی کچھ وقعت ہے، جبکہ اٹھارہ لاکھ افراد کاٹ اور جلا کر راکھ کر دیے جائیں؟؟؟ہزاروں عفیفائیں کنوؤں میں کود کر عفت بچا لے جائیں؟
بچہ ہو ابھی، تم کیا جانو ۔۔۔ بیگم صاحب سمجھیں گی ہماری بات۔ کیوں بیگم! کبھی عرب کا، ایران یا ترکی کا روپیہ یا ٹکٹ نظر آ جاتا تو ہم کیا، اچھے اچھے آنکھوں سے لگا لیا کرتے۔ صاب تک چوم لیا کرتے تھے اس روپے کو۔ کاہے سے کہ اپنی مسلمان حکومت کا ہوتا تھا۔" شریف کی آواز میں خطابت آ چلی تھی۔ "پھر بیگم صاحب، آپ بتائیے، کبھی خواب میں بھی سوچا ہوگا کہ اپنے ملک میں پاس کے پاس ایک مسلمان حکومت بن جائے گی۔ ارے ہم تو اس کی خیر منائیں گے۔ ہمارے نصیب کب تھے ایسے۔"
قابلِ رحم ہے وہ قوم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں مگر دل یقیں سے خالی ہیں
۔ اگر ہم اپنے ملک پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں لانا چاہتے ہیں اور ایک اسلامی فلاحی مملکت بنانا چاہتے ہیں تو اس کی کمزوریوں پر کام کرتے ہوئے خطرات سے نبرد آزما ہونا اور مثبت پہلوؤں پر انحصار کرتے ہوئے مواقع سے فائدہ اٹھانا ناگزیر ہے