پاکستان اور گرے لسٹ

ایف-اے-ٹی-ایف کو لے کر پاکستان میں خاصی سنسنی پائی جاتی ہے۔ اکثر و بیشتر حکومت کوئی قانون سازی کرنا چاہ رہی ہو تو دلیل دیتی ہے کہ یہ قانون سازی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس خدشے کا بھی اظہار ہوتا ہے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان کو بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔ آخر یہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ اور بلیک لسٹ ہے کیا ۔ اور ممالک کا  ان میں موجود ہونے سے کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ اس آرٹیکل میں ہم تفصیل سے دیکھیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم غیر جانب ہوکر یہ دیکھنےکی کوشش بھی کریں گے کہ ایف اے ٹی ایف کے اغراض و مقاصد کیا ہیں اور کیا ایف اے ٹی ایف اپنے اصل اغراض  و مقاصد سے ہٹ کر کچھ ممالک کے سیاسی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کا باعث بنتا ہےیا صرف ایسا تاثرہی ہے؟

ایف اے ٹی ایف کیا ہے؟

ایف اے ٹی ایف ایک ٹاسک فورس ہے جو کہ ممالک کے مابین پیسے کی غیر قانونی ترسیل یعنی منی لانڈرنگ پر نظر رکھتی ہے اور اس بات کی روک تھام کی کوشش کرتی ہے کہ  یہ پیسہ دہشت گردی اور مہلک ہتھیاروں کے پھیلاؤ میں استعمال نہ ہو۔ یہاں یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ ایف اے ٹی ایف نے خود کو کبھی عالمی ادارہ یا عالمی تنظیم ہونے کا اعلان نہیں کیا۔ ایف اے ٹی ایف صرف ایک ٹاسک فورس ہے جو منی لانڈرنگ روکنے کے ہدف پر معمور ہے۔ ایسا یہ اپنے رکن ممالک اور مختلف عالمی اداروں کی معاونت سے کرتی ہے۔اس وقت ایف اے ٹی ایف کے 39 ارکان ہیں، جن میں 37 ممالک اور اور دو بین الممالک تنظیمیں جی سی سی اور یورپین کمیشن شامل ہیں۔ دنیا کے باقی ممالک 9 گروپس کی شکل میں ایسوسیئٹ ممبران کے طور پر موجود ہیں۔پاکستان ان گروپس میں سے ایشیا   پیسیفکگروپ میں ایسوسیئٹ ممبر کے طور پر آتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کا قیام1989 میں سات بڑی معیشتوں یعنی جی 7 کے اجلاس میں عمل میں آیا۔ اس وقت ایف اے ٹی ایف کا صدر دفترپیرس ، فرانس میں ہے۔

ایف-اے-ٹی-ایف کے اغراض و مقاصد:

ایف اے ٹی ایف کے اپنے مطابق اس کے مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد ہیں۔

1۔ پیسے کی غیر قانونی ترسیل یعنی منی لانڈرنگ کو روکنے کی خاطر سفارشات اور معیارمرتب کرنا۔

2دہشت گردی اور مہلک ہتھیاروں کے پھیلاؤ میں پیسے کے استعمال کو روکنا۔

3۔ یہ معلوم کرنا کہ موجودہ معاشی نظام کو کیا خطرات لاحق ہیں اور کیسے دہشت گرد پیسے کو معاشی نظام کی

نظروں سے بچا کر استعمال کرتے ہیں۔

ایف-اے ٹی-ایف کی مختصر تاریخ:

موجودہ معاشی اور بینکنگ کے نظام کو لاحق غیر قانونی پیسے کی ترسیل کے خطرات کے پیش نظر 1989 میں سات بڑی معیشتوں نے ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ کیا۔ ایسا کرتے ہی انہوں نے اس ٹاسک فورس کو پہلا ہدف دیا کہ وہ منی لانڈرنگ کو روکنے کی خاطر سفارشات مرتب کرے۔ اپنے قیام کے ایک سال کے ان 1990 میں ہی اس ٹاسک فورس نے چالیس سفارشات مرتب کر لیں۔ ان سفارشات کے مطابق منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے ایک جامع منصوبہ سازی کی جاسکتی تھی۔ 2001 میں جب نائن الیون کا واقعہ ہوا تو اس ٹاسکفورس کو دہشت گردی میں  پیسے کی روک تھام کے لیے سفارشات مرتب کرنے کا ہدف بھی دے دیا گیا۔ 2004 میں مزید 9  سفارشات پیش کر دیں گئیں۔2012 میں ان نو سفارشات کو پچھلی چالیس سفارشات میں جمع کر کے 49 سفارشات یا معیارات کی فہرست مرتب کر دی گئی۔

اگر ہم ایف اے ٹی ایف کے ارکان کی بات کریں تو جس وقت1989  میں ٹاسک فورس تشکیل دی گئی،اس وقت یورپین ممالک سمیت اس کے سولہ ارکان تھے۔ 1991 سے 1992 کے دوران اس کے ارکان سولہ سے بڑھ کراٹھائیس ہوگئے۔ 2000 کے آتے آتے اس کے ارکان 31 تک ہوگئے اور اب 2021 میں 39 ہو چکے ہیں.

 

پاکستان کو پہلی مرتبہ 2008 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کا سامنہ کرنا پڑا۔ 2015 میں پاکستان باہر آ گیا لیکن پھر 2018 میں دوبارہ گرے لسٹ کا حصہ بنا دیا گیا اور اب تک پاکستان اسی کا ہی حصہ ہے۔ یہ گرے لسٹ ہوتی کیا ہے اس پر تفصیل سے آگے ہم بات کریں گے۔

ایف-اے-ٹی-ایف کے کام کا طریقہ کار:

ایف اے ٹی ایف کی ویب سائیٹ کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں پیسے کی روک تھام کیلے مختلف رپورٹس شایع کرتی رہتی ہے۔ ان رپورٹس میں ممالک کےلیے زر سے متعلق جرائم کی روک تھام کی خاطر ہدایات، سفارشات اور رہنمائی موجود ہوتی ہے۔ ایف اے ٹی ایف اپنی

رپورٹس میں یہ بھی درج کرتی ہے کہ مختلف شعبہ جات میں کون کون سے منی لانڈرنگ کے طریقے کار رائج ہیں اور ان کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔

ایف اے ٹی ایف نے 49 سفارشات اور معیارات بھی مرتب کر رکھی ہیں جن پر عمل درامد سے نہ صرف منی لانڈرنگ بلکہ دہشت گردی میں پیسے کے استعمال کو بھی روکا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک ان معیارات پر کس حد تک عمل کر رہے ہیں، اس کا جائزہ سال میں تین  پلینری سیشنز کے ذریعے لیا جاتاہے۔ ان پلینری سیشنز کی صدارت وہ ملک کرتا ہے جو  اس وقت ایف اے ٹی ایف کا سربراہ ہو۔ اس وقت ایف اے ٹی ایف کی صدارت جرمنی کے پاس ہے اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مارکس پلئیر صدر ہیں۔ اس سے

پہلے صدارت عوامی جمہوریہ چین کے پاس تھی۔ ایف اے ٹی ایف اپنے پلینری سیشنز میں اس بات کا جائزہ لیتی ہے کہ کہاں کہاں منی لانڈرنگ ہو رہی

ہے اور کہاں کہاں اس سے دہشت گردی کے پھیلاؤ کا خطرہ ہے۔ اپنے  پلینری سیشن کے بعد ایف اے ٹی ایف ان ممالک کی فہرست جاری کرتی ہے جن کو وارننگ دی جاتی ہے کہ وہ اپنے ممالک میں منی لانڈرنگ کے روک تھام کےلیے قانونی اور انتظامی چارہ جوئی کریں۔ ان ممالک کو نہ صرف وارننگ دی جاتی ہے بلکہ اس پر

خصوصی نظر بھی رکھی جاتی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی اس فہرست کو گرے لسٹ کہتے ہیں۔گرے لسٹ کے ممالک کو ہدایت دیں جاتی ہیں کہ وہ ایک خاص ڈیڈ لائن تک عمل کر لیں۔ اگر وہ نا کام ہو جائیں تو ان کو بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے۔

گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کے نقصانات:

1۔ گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کے ممالک کی عالمی ساکھ بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

2۔ گرے لسٹ کے ممالک میں سرمایہ دار پیسے لگانے سے گھبراتا ہے۔ جبکہ بلیک لسٹ میں عالمی پابندیوں کی وجہ سے بہت سا سرمایہ دار بھاگ جاتا ہے۔

3۔ گرے لسٹ کے ممالک کو عالمی اداروں جیسا کہ عالمی بینک، آئی ایم ایف سے قرضہ لینے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جبکہ بلیک لسٹ کے ممالک کسی عالمی ادارے سے قرصہ نہیں لے پاتے۔

ایف – اے-ٹی-ایف اور پاکستان:

پاکستان اس وقت 2018 سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کا شکار ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی میں استعمال ہونے والے پیسے میں روک تھام میں نا کامی کے باعث گرے لسٹ میں داخل کیا گیا ہے۔ 2018 میں پاکستان کو 27 نکاتی منصوبہ دیا گیا تھا جس پر پاکستان کو ایک ڈیڈ لائن تک عمل درآمد کرنا تھا۔ پاکستان نے اب تک 24 پر عمل درآمد کر لیا ہے جب کہ 3 باقی ہیں۔ لیکن پھر بھی پاکستان کو کلین چٹ نہیں دی گئی۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کو عالمی طاقتوں کے سیاسی مقاصد کی وجہ سے کلین چٹ نہیں دی جا رہی۔ صرف یہ ہی نہیں اور بھی کئی عوامل ایسے ہیں جو اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان سے ان نکات کے علاوہ کچھ اور بھی مطلوب ہے۔