ملت و وطن

1956میں جب اسرائیل، فرانس اور برطانیہ نے مل کر مصر پر حملہ کیا، تب بھی حکومتِ پاکستان نے مصر کی حمایت میں ایک لفظ تک نہیں نکالا تھا اور آج بھی جب چین میں مسلمانوں پر عرصہِ حیات تنگ کردیا گیا ہے تو ہمارے منہ سے کوئی آواز نہیں نکلی۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ اپنے مفاد کے گرد گھومنے والی اسی حقیقت پسندی کے گرد گھومی ہے جس کے لیے ہم عرب ممالک یا بعض اوقات ایران کو گالی دیتے ہیں۔ لہذا پین اسلام ازم یا امت کا خالص دینی اور تصوراتی آئیڈیل جو کبھی ہماری عملی خارجہ پالیسی کا مرکز رہا ہی نہیں، ہمارے مسائل کا ذمہ دار کیونکر ہوسکتا ہے لہذا صبح و شام اسے کوسنا بے تکی حرکت اور بچگانہ رویہ ہے۔

 

اسلام کے ورلڈ ویو سے اخذ ہونے والے آئیڈیلز (جس کا ایک حصہ امت ہے) بہ طور آئیڈیل اپنی جگہ موجود ہیں اور رہیں گے۔ لیکن آج کا ورلڈ آرڈر اسلام اور اس کے آئیڈیلز سے مطابقت نہیں رکھتا، پھر چاہے وہ سودی معیشت ہو یا خودغرض قومی ریاست۔ یہ ورلڈ آرڈر مکروہ اور غلیظ ہے، لیکن ہم اس میں گزارا کرنے پر مجبور ہیں کیوں کہ فی الوقت اور کوئی فوری دستیاب آپشن نہیں۔ مگر یہ بھی حقیقیت ہے کہ حقیقت ،وقت  اور حالات کے ناسازگار ہونے سے آئیڈیلز، اگر   بطور آئیڈیلز بھی مرنے لگیں تو دنیا میں کسی قسم کی معمولی سے معمولی تبدیلی بھی انسانوں کی جانب سے رونما نہ ہو۔