پاس مذہب کا ہو یا بھرم ذات کا

پاس مذہب کا ہو یا بھرم ذات کا
آدمی ہے غلام اپنی عادات کا


دم نکل جائے گا اب جوابات کا
سلسلہ چل پڑا ہے سوالات کا


گھر کی دیواریں تو ہو چکیں نم مگر
جانے اب کیا ارادہ ہے برسات کا


لاکھ باتیں سناتی ہے دنیا ہمیں
کیا برا ماننا تیری اک بات کا


دو گھڑی مجھ سے روٹھا ہے میرا شعور
سلسلہ منقطع ہے خیالات کا


جب مداری نے چاہا ہنسے رو دئے
ہم بھی سمجھے نہیں کھیل جذبات کا


آئے بیٹھے چلے بات کچھ کی نہیں
فائدہ کیا ہے ایسی ملاقات کا


کیسے بدلے گی تقدیر عاقبؔ میاں
شکوہ کرتے رہو گے جو حالات کا