پاؤں گردش میں ہیں کتنوں کے مکاں کے آگے

پاؤں گردش میں ہیں کتنوں کے مکاں کے آگے
پیچھے سایہ کے یا برفاب گراں کے آگے


دل تو وہ ہے کہ کرے شوخ دلوں کی تسخیر
عہد پیری میں بھی ہر پیر و جواں کے آگے


ابن آدم کے لئے چاہئے اک عالم نو
ماہ و مریخ کے بے روح جہاں کے آگے


کیا کوئی راہ نہیں اہل تخیل کے لئے
غمزہ و عشوہ و انداز بتاں کے آگے


طرز ابہام جنوں ہو کہ فسوں کاری ہو
اس کی منزل نہیں انداز بیاں کے آگے


جب زمیں پر مجھے بننا تھا درندہ کا رقیب
میری پرواز ہو کیوں کون و مکاں کے آگے


صاف گوئی کو صداقت کی زیاں کوشی کو
کون مانے ہے دروغ دگراں کے آگے


ہم کو مسجد سے ہوا عشق نہ میخانے سے
کون سا جرم ہے اس جرم گراں کے آگے