دل مرا لوٹ گیا وہ بڑی توقیر کے ساتھ
دل مرا لوٹ گیا وہ بڑی توقیر کے ساتھ
جو مجھے جیت نہ پایا کبھی شمشیر کے ساتھ
کوئی کس طرح سے بدلے گا مقدر کا لکھا
کوئی کس طرح سے لڑ پائے گا تقدیر کے ساتھ
دل کی نگری سے کئی ایک مسافر گزرے
کوئی ٹھہرا ہی نہیں ہے دل بے پیر کے ساتھ
درد جب حد سے گزر جائے تو کچھ بات بنے
نام میرا بھی کبھی آئے تقی میرؔ کے ساتھ
میں اسے بھول کے بھی یاد نہیں آ سکتی
جو مجھے باندھ گیا درد کی زنجیر کے ساتھ
میں نے منت سے اور منت سے تمہیں مانگا ہے
تم جو مل سکتے تھے مجھ کو کسی تدبیر کے ساتھ
یہ ہی الفاظ مری شان ہیں سرمایہ ہیں
کچھ تقابل نہیں ان کا کسی جاگیر کے ساتھ
کاٹ کر آج کے اخبار کو تعویذ کیا
تیری تصویر چھپی ہے تری تحریر کے ساتھ
تجھ کو رانجھا سے کبھی بھی کوئی نسبت نہ رہی
ہر فسانے میں مرا ذکر چلا ہیر کے ساتھ
آپ پہلو سے یوں چپ چاپ لگے بیٹھے ہیں
جیسے تصویر لگا دے کوئی تصویر کے ساتھ
داد ملتی ہے تبسمؔ تجھے یوں دیر کے بعد
تیرے اشعار سمجھ آتے ہیں تاخیر کے ساتھ