نیل بہتا تھا پرندوں کی قطاریں تھیں وہاں

نیل بہتا تھا پرندوں کی قطاریں تھیں وہاں
خواب سا منظر تھا کوئی آبشاریں تھیں وہاں


اک عجب سی نغمگی رہتی تھی قلب و روح میں
سانس کی مضراب اور دھڑکن کی تاریں تھیں وہاں


خار و خس بکھرے پڑے ہیں آرزو کے شہر میں
کوئی دن کا ذکر ہے رقصاں بہاریں تھیں وہاں


اب تو ان آنکھوں میں کھارے پانیوں کا زور ہے
اور تم کہتے ہو پہلے آبکاریں تھیں وہاں


ایک اک کر کے سبھی وعدوں کے بندھن کٹ گئے
لفظ کیا تھے خنجروں کی تیز دھاریں تھیں وہاں


اس جگہ تو اور بھی ویراں لگا دل کا نگر
دن ڈھلے گھر لوٹتی کونجوں کی ڈاریں تھیں وہاں