نگاہیں اٹھ رہی ہیں میری جانب اک زمانے کی (ردیف .. ے)

نگاہیں اٹھ رہی ہیں میری جانب اک زمانے کی
بھرم کھل جائے گا کوشش نہ کیجے مسکرانے کی


زمانے کے ستم ان کی جفا مری فدا کاری
یہی شاید بنیں گی سرخیاں میرے فسانے کی


جہاں سے بجلیوں کا قافلہ گزرا ہے گلشن میں
وہیں بنیاد رکھ چھوڑی ہے میں نے آشیانے کی


خزاں کے رخ پہ زہریلا تبسم میں نے دیکھا ہے
کلی کو مل گئی شاید اجازت مسکرانے کی


مشیت کا یہ منشا ہے میں طوفانوں میں ابھروں گا
زمانہ لاکھ کر لے سازشیں میرے مٹانے کی


نصیحت کرنے والو شکریہ لیکن یہ بتلاؤ
کہاں سے لاؤں ہمت ان کے در سے لوٹ آنے کی


کبھی مجبورئ حالات میں ایسا بھی ہوتا ہے
سفینوں کو ہوا کرتی ہے خواہش ڈوب جانے کی


اندھیروں نے قمرؔ کیا کیا مری راہوں کو روکا ہے
کبھی کوشش جو میں نے کی کوئی شمع جلانے کے