نگاہ مست میں کیا رنگ والہانہ تھا
نگاہ مست میں کیا رنگ والہانہ تھا
سرور و کیف میں ڈوبا ہوا زمانہ تھا
کسی کی اٹھتی جوانی کا جب زمانہ تھا
مری نگاہ کا ہر فعل شاعرانہ تھا
ستم نصیب کی اللہ رے سوختہ بختی
ہے بجلیوں کا نشیمن جو آشیانہ تھا
ازل سے قید عناصر عطا ہوئی مجھ کو
مرے نصیب میں زنداں کا آب و دانہ تھا
وفور درد سے جب ہچکیاں سی آنے لگیں
ہر ایک زخم کے لب پر مرا فسانہ تھا
شروع عشق میں کیا میری شاعری تھی نہ پوچھ
فلک پہ مرغ تخیل کا آشیانہ تھا
وطن میں حضرت الطافؔ زندگی اپنی
بہار خلد محبت کا اک فسانہ تھا