نے جام رہا نہ تو مے خانہ نہ ہی شور کہیں پیمانوں کا

نے جام رہا نہ تو مے خانہ نہ ہی شور کہیں پیمانوں کا
ساقی کا کہیں پر نام رہا اور نام کہیں مستانوں کا


اے شمع اسے کیا سمجھیں ہم ہنستی بھی ہے تو روتی بھی ہے تو
ہے باعث غم یا وجہ خوشی جل مر مٹنا پروانوں کا


ہمدرد جنہیں دل سمجھا تھا مت پوچھئے ان سے کیا پایا
دکھ درد کا مسکن دل ہے بنا مخزن تھا کبھی ارمانوں کا


حق بات بری لگتی ہو جہاں ہر عیب ہنر بن جائے جہاں
ایسے میں ملے انصاف کہاں کیا کام یہاں میزانوں کا


کیا دوست اگر ہوں دشمن بھی آ جائیں ترے در پر جو کبھی
آنکھیں تو بچھائے جا نجمیؔ دل رکھ لینا مہمانوں کا