نہ یوں بار بار دیکھو مرا دل پگھل گیا تو

نہ یوں بار بار دیکھو مرا دل پگھل گیا تو
میں کہاں تلک سنبھالوں یہ اگر مچل گیا تو


ہے یہ مشورہ تمہارا کہ میں دل پہ جبر کر لوں
کیا یہ تم بھی سہہ سکو گے میں اگر بدل گیا تو


یا تو دوش مجھ کو مت دو یا نقاب خود الٹ دو
تپش نظر سے میری جو نقاب جل گیا تو


کہو کب تلک کہو گے بے زباں نہیں ہوں میں بھی
کیا کرو گے میرے منہ سے کہیں کچھ نکل گیا تو


نہیں خوف برق مجھ کو کئی پھر سے بن سکیں گے
کہیں ساتھ آشیاں کے یہ چمن بھی جل گیا تو


میرے صبر و در گزر کو نہ سمجھنا بزدلی تم
یہ تمہیں پڑے گا مہنگا جو دماغ چل گیا تو


کسی فتنہ گر کا نجمیؔ ہے سدھار غیر ممکن
اسے معجزہ ہی کہنا جو کوئی سنبھل گیا تو