ایک کنکر گرا فکر کی جھیل میں اور فن کے ابھرنے لگے دائرے

ایک کنکر گرا فکر کی جھیل میں اور فن کے ابھرنے لگے دائرے
وجد میں آ گئے آگہی کے کنول پھر مچلنے تھرکنے لگے دائرے


دل کی گہرائیوں سے تلاطم اٹھا لمحہ لمحہ یہ پیہم امڑتا چلا
پھر نہ وجدان پر اپنے قابو رہا زمزموں کے ابلنے لگے دائرے


زمزمے تھے کہ تھا یہ سحر سامری نغمگی تھی کہ تھی کرشن کی بانسری
لے پہ جس کے کوئی رادھا کھنچتی چلی فاصلوں کے سمٹنے لگے دائرے


ان کی وارفتگی قابل دید تھی گویا صدیوں کی تھی پیار کی تشنگی
اور بڑھنے لگی اور بڑھتی گئی جوں ہی بانہوں کے کسنے لگے دائرے


صبح گاہی سے پر نور تھیں وادیاں گونج اٹھیں امنگوں کی شہنائیاں
جنم لینے لگی اک نئی داستاں اور نجمیؔ سلجھنے لگے دائرے