میرا درد اور بڑھا گئی میرے عقل و ہوش پہ چھا گئی

میرا درد اور بڑھا گئی میرے عقل و ہوش پہ چھا گئی
مجھے باؤلا سا بنا گئی تری یاد جب کبھی آ گئی


یہ جو میرے دل کے قریب ہے وہ حبیب ہے کہ رقیب ہے
یہ زمانے بھر سے عجیب ہے مرے ذہن میں جو سما گئی


نہ وہ جذب عشق دروں رہا نہ وہ عقل ساز جنوں رہا
نہ وہ بے خودی کا فسوں رہا یہ خودی کی بات جو آ گئی


نہ وہ سوز ہے نہ گداز ہے نہ وہ ناز ہے نہ نیاز ہے
شہہ غزنوی نہ ایاز ہے یہ جہاں سے رسم وفا گئی


یہ شعور نجمیؔ یہ فکر و فن تری شاعری کا یہ بانکپن
یہ تصورات کی انجمن نئی کائنات بسا گئی