جانے ان آنکھوں میں یہ کیسا نشہ رکھا ہے
جانے ان آنکھوں میں یہ کیسا نشہ رکھا ہے
جس نے دیکھا اسے بدمست بنا رکھا ہے
تم پلاؤ گے تو پی لیں گے ہمیں کیا اس سے
زہر ہے جام میں یا آب بقا رکھا ہے
ہم نشینی سے تمہاری ہے بہار ہستی
ان شب و روز میں تم ہی کہو کیا رکھا ہے
اس طرح آنے سے بہتر تھا نہ آتے صاحب
چند لمحوں کی ملاقات میں کیا رکھا ہے
موسموں کی طرح بدلا کئے وہ پر ہم نے
خود کو ہر حال میں پابند وفا رکھا ہے
آپ کا بزم تصور میں چلے آ جانا
ہم کو ماحول سے بیگانہ بنا رکھا ہے
شعر اپنے نہیں ممنون کسی کے نجمیؔ
ہم نے بفضل خدا ذہن رسا رکھا ہے