نذر غالبؔ

وائے تقدیر میں گدھا نہ ہوا
ہم نوا کرشن چندر کا نہ ہوا
ماسٹر کی پلک جھپکتے ہی
حاضری دے کے میں روانہ ہوا
وہی آیا سوال پرچے میں
ایک دن کا بھی جو پڑھا نہ ہوا
کھیل بھی ہم سکے نہ جی بھر کے
کھیلنے کا بھی حق ادا نہ ہوا
مدتوں اپنے ماسٹر جی سے
مدرسے میں بھی سامنا نہ ہوا
میں وہ دادا ہوں سب کو مار کے بھی
آج تک قابل سزا نہ ہوا
کیفؔ میدان شعر گوئی میں
کوئی غالبؔ سا دوسرا نہ ہوا