نظر آنے لگے ہو مہرباں سے

نظر آنے لگے ہو مہرباں سے
یہ انداز آ گئے تم میں کہاں سے


کسے راس آئے گی تیری خدائی
اگر ہم اٹھ گئے بزم جہاں سے


بھرم کھل جائے گا تیرے کرم کا
اگر کچھ کہہ دیا ہم نے زباں سے


کہاں سے آ گیا یہ ابر رحمت
ہمیں کچھ کام تھا برق تپاں سے


جسے دیکھو وہی مطلب کا بندہ
محبت اٹھ گئی روئے جہاں سے


کریں گے ذکر تیرے حسن کا بھی
اگر فرصت ملی کار جہاں سے


تڑپتی پھر رہی ہے برق اب تک
الجھ بیٹھی تھی میرے آشیاں سے


یوں ہی روتی نہیں صابرؔ کو دنیا
اسے بھی عشق تھا اہل جہاں سے