نزاکت محبت کا غم کھا رہی ہے
نزاکت محبت کا غم کھا رہی ہے
محبت محبت ہوئی جا رہی ہے
تمہاری نظر کے حسیں مے کدوں میں
عروس خرابات اٹھلا رہی ہے
نظر کیا لڑی ایک خنداں نظر سے
جوانی تبسم بنی جا رہی ہے
تصور کے ہاتھوں میں دے کر کھلونے
جوانی محبت کو بہلا رہی ہے
یہ کیا بات ہے اجنبی انکھڑیوں سے
کوئی جانی بوجھی صدا آ رہی ہے
نہ پھولوں کی رت ہے نہ کلیوں کا موسم
مگر بلبل بے نوا گا رہی ہے
یہ الطافؔ کون آ گیا وقت آخر
قضا نرم و شیریں ہوئی جا رہی ہے