نہیں وہ کھول کر لب بولتا ہے
نہیں وہ کھول کر لب بولتا ہے
یہ اس کا کون سا ڈھب بولتا ہے
وہ محو گفتگو یوں ہے کہ جیسے
کسی بچے سے مکتب بولتا ہے
ملے چپ چاپ تو اپنی سناؤں
وہ سنتا ہی نہیں جب بولتا ہے
کہوں کیسے ہے اس کی ذات مفرد
وہ ہر جملہ مرکب بولتا ہے
کتاب اک ایسی ہم کھولے ہوئے ہیں
ہمارے دو بدو رب بولتا ہے
مرے اندر ہے زندہ ایک شاعر
کبھی چپ تھا مگر اب بولتا ہے
مبلغ بدرؔ ہے دین سخن کا
سنو کیا اس کا مذہب بولتا ہے