بہتے پانی کی نشانی اور ہے

بہتے پانی کی نشانی اور ہے
ٹھہرے دریا کی روانی اور ہے


رکھ رکھاؤ خاندانی اور ہے
ہو کنواں گہرا تو پانی اور ہے


دن میں لگتی رات رانی اور ہے
اس کا سچ اس کی کہانی اور ہے


سینچتے ہیں خون دل سے ہم انہیں
خواہشوں کی باغبانی اور ہے


دو دنوں کے بعد یہ ہم پر کھلا
دو دنوں کی زندگانی اور ہے


جو نہیں مرتی کسی بھی موت سے
وہ حیات جاودانی اور ہے


آسماں کو کیوں نہیں کہتے زمیں
اس کی مٹی تو پرانی اور ہے