آنکھوں میں اپنی اشک ندامت لئے ہوئے

آنکھوں میں اپنی اشک ندامت لئے ہوئے
ہم ہیں عجیب رنگ عبادت لئے ہوئے


دوزخ لئے ہوئے کہیں جنت لئے ہوئے
ہر چیز ہے وہ حسب ضرورت لئے ہوئے


شوق گناہ کم ہے نہ خوف خدا ہے کم
دونوں ہی چار دن کی ہیں مہلت لئے ہوئے


بیٹھو نہ یوں کہ پاؤں سے چھن جائے یہ زمیں
سر پر کھڑا ہے کوئی قیامت لئے ہوئے


افسوس سے غرض نہ کوئی خوف ہے اسے
وہ آدمی ہے کیسی کرامت لئے ہوئے


ہجرت کوئی دیار حقیقت سے کر گیا
خوابوں کے شہر میں ہے سکونت لئے ہوئے


میں چاہتا تھا اس کو اجازت نہ دوں مگر
وہ چل پڑا بغیر اجازت لئے ہوئے