دور گھر سے کہیں اس طرح بھی جایا جائے

دور گھر سے کہیں اس طرح بھی جایا جائے
دیر تک دھوپ کی بارش میں نہایا جائے


اپنی یادوں کو مرے پاس کوئی چھوڑ گیا
غم جدا ہونے کا کس طرح بھلایا جائے


سب پرائے ہوئے ہونے سے پرایا اس کے
سوچتا ہوں کسے اب اپنا بنایا جائے


دل دکھانے سے کسی کا انہیں ملتی ہے خوشی
بات ایسی ہے تو پھر مجھ کو رلایا جائے


ہونے والی ہے چراغوں کی حکومت قائم
رات بھر کے لئے سورج کو چھپایا جائے


خامشی دیکھ کے پھیلی ہوئی آبادی میں
یہ پرندوں نے کہا شور مچایا جائے


مل کے جینے کے لئے لوگ ہوئے ہیں یکجا
زیست کا بوجھ ہے تنہا نہ اٹھایا جائے