نگری نگری گھوم رہے ہیں الفت کے دیوانے چند

نگری نگری گھوم رہے ہیں الفت کے دیوانے چند
پاؤں شکستہ تن زخمی ہیں ہاتھوں میں پیمانے چند


جیتی دھوپ سسکتی آہیں جہد مسلسل زخم دل
ہائے رے اس مزدور کی حالت جس کی قسمت دانے چند


ایسا کال نہ دیکھا ہم نے ویسے دیکھے کال بہت
میخانے میں سب ہی پیاسے لیکن ہیں پیمانے چند


ہم سے روٹھ کے جانے والے اپنا تصور رہنے دے
ہم نے بنے ہیں جیون بھر میں خواب کے تانے بانے چند


ہاں اے چارہ گرو میری بربادی کا سامان کرو
خون تمنا کی سرخی سے سج جائیں کاشانے چند


غم کی تپش نے بہتے آنسو خشک کیے ہیں اے انجمؔ
گریۂ شبنم گلشن گلشن پھر بھی بھریں پیمانے چند