نگر یقین کا شہر گماں سے آگے ہے

نگر یقین کا شہر گماں سے آگے ہے
جہاں ہمارا تمہارے جہاں سے آگے ہے


شکم میں بھوک پروں میں ہوائیں رکھ طائر
بہت سا رزق ابھی آسماں سے آگے ہے


میں بھول بیٹھا ہوں اپنی تلاش میں یہ بھی
مرا وجود مرے دشت جاں سے آگے ہے


تجھے تلاش خضر ہے تو آ یہاں سے گزر
جہان خضر مرے خاکداں سے آگے ہے


ہو جس کو دشت میں حاصل قرابت ضیغم
وہی غزال ہجوم سگاں سے آگے ہے


مجھے بھی لوٹا گیا ہے بڑے سلیقے سے
مرا بھی ذکر تری داستاں سے آگے ہے


زمین پہ ہوں مگر ہوں فلک نورد ایسا
کہ جس کا پاؤں سر کہکشاں سے آگے ہے


اسی لیے تو تعاقب میں ہے چراغ فلک
کہ میرا سایہ مرے کارواں سے آگے ہے


یہاں جو خود کو سمجھتا نہیں ہدف عادلؔ
اسی کا تیر گرفت کماں سے آگے ہے