آنکھ سے اس فکر میں ہوتا نہیں پانی جدا

آنکھ سے اس فکر میں ہوتا نہیں پانی جدا
ایک دن ہو جائے گی مجھ سے مری بیٹی جدا


موجب فرقت وہاں بھی دانۂ گندم ہی تھا
اور اکثر یاں بھی ہم کو کرتی ہے روٹی جدا


وادئ دل تک نظر آئے گی اک چھوٹی لکیر
کر رہے ہو آنکھ سے تم جس طرح پانی جدا


باد و باراں نے بھی اس سے دل لگی کیا خوب کی
جو اڑا کر لے گئیں چھتری جدا چنری جدا


خواہشوں پر پھر مسلط ہو گئے دنیا کے غم
ہو رہا ہے دل سے دھیرے دھیرے پھر کوئی جدا


دیر سے ملتا ہے جو رشتوں کے میلے میں ہمیں
جانے ہو جاتا ہے کیوں ہم سے وہی جلدی جدا


اڑ گئیں مرغابیاں پر اس طرف بیٹھے ہوئے
ایک لڑکے کو سبھی سے کر گئی گولی جدا


برہمی رشتوں کی شادی کے دنوں میں عام ہے
جو بھی کر لو پاؤں سے ہوتی نہیں پگڑی جدا