اس طرح حاجت اسیر نہ کھینچ
اس طرح حاجت اسیر نہ کھینچ
بھیک دے کاسۂ فقیر نہ کھینچ
رحم کر کچھ تو دست مجبوری
جان لے لے مگر ضمیر نہ کھینچ
یہ کہانی بڑی منافق ہے
اس میں یوں ہی مرا شریر نہ کھینچ
دائرے شوق سے بنا لیکن
اب کوئی خون کی لکیر نہ کھینچ
لفظ واپس بھی لوٹ سکتے ہیں
اپنے لہجے میں کوئی تیر نہ کھینچ
اپنا اسلوب بن سکے تو بنا
شعر میں غالبؔ اور میرؔ نہ کھینچ
آنے والے سراغ چاہتے ہیں
اے ہوا نقش راہگیر نہ کھینچ
یہ شرافت بھی ایک رسی ہے
ٹوٹ جائے گی میرے ویر نہ کھینچ