ناؤ جب وحشی سمندر کی اماں پر چھوڑ دی
ناؤ جب وحشی سمندر کی اماں پر چھوڑ دی
اپنی قسمت کی کہانی بادباں پر چھوڑ دی
منزلوں کو دیکھتے ہی بے مروت شخص نے
راستے کی گرد پورے کارواں پر چھوڑ دی
بے مکاں ہوتے ہوئے اک مصلحت اندیش نے
اپنے دل کی ہر تمنا لا مکاں پر چھوڑ دی
بادلوں کو بجلیوں سے مستیوں میں دیکھ کر
اک دعا محصور کر کے آسماں پر چھوڑ دی
لٹ گیا جب کارواں تو نازؔ پھر سالار نے
قافلے کی رہبری بھی سارباں پر چھوڑ دی