دل سراپا بے بسی ہونے کو ہے

دل سراپا بے بسی ہونے کو ہے
چار سو اک خامشی ہونے کو ہے


ان دیوں کو گل بھی ہونا ہے ابھی
ہر طرف گو روشنی ہونے کو ہے


موت سے بھی بڑھ کے کہتے ہیں جسے
تیری میری زندگی ہونے کو ہے


کالے کالے گیسوؤں کے فیض سے
شام دل کی سرمئی ہونے کو ہے


سبز رت کے آخری ہفتے میں نازؔ
پانچ سالہ دوستی ہونے کو ہے