کبھی ترتیب دیتا ہے کبھی مسمار کرتا ہے
کبھی ترتیب دیتا ہے کبھی مسمار کرتا ہے
وہ اپنی بے بسی کا اس طرح اظہار کرتا ہے
گمان و بے یقینی کب کسے تکمیل کرتے ہیں
جسے امید ہوتی ہے وہی اصرار کرتا ہے
کسی اک فیصلے کے منتظر ہیں لوگ مدت سے
اسے کافر کہیں گے سب اگر انکار کرتا ہے
پڑاؤ کر چکا ہے کارواں ایسے علاقے میں
جہاں نہ ٹھہرنے پہ کل جہاں اصرار کرتا ہے
کبھی تو راستے خود منزلوں سے دور کرتے ہیں
کہیں پر خود جنوں بھی راستہ ہموار کرتا ہے
مجھے میرے ارادے ٹوٹنے سے روکتے ہیں نازؔ
مگر حالات کہتے ہیں سفر بے کار کرتا ہے