نام لکھا لیا تو پھر کرتے ہو ہائے ہائے کیوں
نام لکھا لیا تو پھر کرتے ہو ہائے ہائے کیوں
پڑھنا نہ تھا تمہیں اگر درجے میں پڑھنے آئے کیوں
کیونکر ہم امتحان دیں سوئیں گے جا کے باغ میں
پڑھنے کو آدھی رات تک کوئی ہمیں جگائے کیوں
بیٹھے ہیں اپنی سیٹ پر کیسے بھگائیں ماسٹر
آئے ہیں دے کے فیس ہم کوئی ہمیں بھگائے کیوں
چیخیں گے خوب ہم یہاں چاہے خفا ہوں میہماں
نفرت ہو جس کو شور سے گھر میں ہمارے آئے کیوں
کوئی پڑوسی تنگ ہو چاہے کسی سے جنگ ہو
گھر ہے یہ اپنے باپ کا کوئی ہمیں چپائے کیوں
کانا خدا نے کر دیا اس میں ہے اپنی کیا خطا
گالی بکیں گے خوب ہم کوئی ہمیں چڑائے کیوں
دیکھو تو پیٹ بن گیا آخر غبارہ گیس کا
کھاتے ہو اتنا گوشت کیوں پیتے ہو اتنی چائے کیوں
ساتھی ہوں یا اساتذہ آئے کسی کو کیا مزہ
درجے میں کوئی بے محل کیفؔ کی غزلیں گائے کیوں