نہ یہ سمجھنا اداسی ہی اپنے گھر ہوگی

نہ یہ سمجھنا اداسی ہی اپنے گھر ہوگی
یقین کیجے کبھی تو نئی سحر ہوگی


بہت قدیم مرا زندگی سے رشتہ ہے
کسے خبر تھی مری چاہ در بدر ہوگی


اسی سبب نہ کبھی رک سکا سفر میرا
تری توجہ کبھی میری راہ بر ہوگی


قدم اٹھائے ہیں ہم نے بھی اس یقین کے ساتھ
جہاں سے گزریں گے ہم تیری رہ گزر ہوگی


ابھی ارادہ نہیں اپنا ترک دنیا کا
جہاں کہیں بھی رہوں آپ کو خبر ہوگی


کسی بھی حال میں اے نازؔ ہم نہیں مایوس
کبھی زمانے کی ہم پر بھی یک نظر ہوگی