اے غم دوست ترا وہ ہی سہارا ہوگا
اے غم دوست ترا وہ ہی سہارا ہوگا
بے خبر رہ کے تجھے جس نے بلایا ہوگا
اپنے آنگن میں ابھی تک وہ بھٹکتا ہوگا
نقش پا آپ کا جس نے بھی مٹایا ہوگا
اپنے ماضی کے کچھ اوراق الٹ کر دیکھو
کوئی تو ہوگا جو اب تک وہیں ٹھہرا ہوگا
یہ سمجھ کر ہی چھپا رکھا ہے آنکھوں میں اسے
آپ کا عکس مگر آپ سے پیارا ہوگا
اب بھی سینے میں لئے آگ میں جلتی ہوں ندیم
اک نہ اک دن مرے گھر میں بھی اجالا ہوگا
میری برباد تمناؤں پہ ہنسنے والا
اپنی پلکوں کو بھی کچھ دیر بھگویا ہوگا
نازؔ بہتر تو یہی ہے کہ گھر اب لوٹ چلیں
کیا خبر کوئی سر شام ہی آیا ہوگا