چراغ جل تو رہے ہیں مگر اندھیرا ہے

چراغ جل تو رہے ہیں مگر اندھیرا ہے
نہ جانے شہر میں کیا اور ہونے والا ہے


اندھیرا گھر سہی لیکن بہت اجالا ہے
نہ جانے آج یہاں کون آنے والا ہے


یہ شخص دیکھنے میں اجنبی نہیں لگتا
نہ جانے کون سی بستی کا رہنے والا ہے


نہ گفتگو میں تسلی نہ خامشی میں صدا
سلوک دوست کا انداز ہی نرالا ہے


وہ جس کے واسطے صدیاں گزار دیں ہم نے
وہ ایک لمحہ بہرحال آنے والا ہے


وہ بے نیاز سہی پھر بھی اس سے کہہ دو نازؔ
یہ دل کا رشتہ ہے کب ٹوٹ جانے والا ہے