دلوں کی بات نظر سے کہی نہیں جاتی
دلوں کی بات نظر سے کہی نہیں جاتی
کہی بھی جائے تو شاید سنی نہیں جاتی
کسی کے ترک محبت کے بعد بھی اے دوست
خلوص عشق کی شائستگی نہیں جاتی
کبھی کبھی تو نظر کے بھی دیپ بجھتے ہیں
چراغ دل کی مگر روشنی نہیں جاتی
ہے اتنا عام یہاں اپنی روشنی کا چلن
شبوں کے ذہنوں سے کیوں تیرگی نہیں جاتی
اک عمر کٹ گئی سمجھوتہ ہو گیا پھر بھی
مزاج دوست تری بے رخی نہیں جاتی
یہ سچ ہے پیاس نگاہوں کی بجھ تو جاتی ہے
دلوں کی نازؔ مگر تشنگی نہیں جاتی