نہ بڑھ سکیں گے قدم کہاں تک نہ اٹھ سکے گی نگاہ کب تک

نہ بڑھ سکیں گے قدم کہاں تک نہ اٹھ سکے گی نگاہ کب تک
مرے جنوں کی ہنسی اڑایا کریں گے یہ مہر و ماہ کب تک


غم محبت کی دسترس سے نکل چکا اب غم زمانہ
تری نگاہیں بھی دے سکیں گی دل حزیں کو پناہ کب تک


ہر ایک لحظہ ہر ایک ساعت نئے حوادث نئے مصائب
یہ زندگی ہے تو زندگی سے کرے گا کوئی نباہ کب تک


تجھے مبارک ترے ارادے یہ راز مجھ کو مگر بتا دے
تری مشیت رہے گی یارب مرے لئے سد راہ کب تک


یہ قافلے جو رواں دواں ہیں ابھی کہاں تھے ابھی کہاں ہیں
جنوں سلامت اگر ہے راہیؔ تو کوئی روکے گا راہ کب تک