جو فلسفہ و دانش و حکمت نے تراشے (ردیف .. ن)

جو فلسفہ و دانش و حکمت نے تراشے
وہ نت نئے اصنام بھی ہم توڑ کے خوش ہیں


فرسودہ روایات کے پابند رہیں کیوں
ہر رہ گزر عام کو ہم چھوڑ کے خوش ہیں


زندان عناصر ہی پہ موقوف نہیں کچھ
زنجیر شب و روز بھی ہم توڑ کے خوش ہیں


افسانۂ دل ہے بھی نہیں بھی ہے مکمل
اک ایسے حسیں موڑ پہ ہم چھوڑ کے خوش ہیں


مست مئے پندار ہیں جو اور ہیں وہ لوگ
ہم لوگ تو ٹوٹے ہوئے دل جوڑ کے خوش ہیں


افسردہ و پژمردہ و ناکام رہیں کیوں
ہم گردش ایام کا رخ موڑ کے خوش ہیں