ہر شب غم کی سحر بھی ہوگی
ہر شب غم کی سحر بھی ہوگی
زندگی ہے تو بسر بھی ہوگی
وہ زمانہ بھی کبھی آئے گا
دل کی جب دل کو خبر بھی ہوگی
درد کم کم نہیں افزوں ہوگا
چشم پر نم نہیں تر بھی ہوگی
آتش عشق جسے کہتے ہیں
وہ ادھر ہے تو ادھر بھی ہوگی
ظلم ہی ظلم نہ ہوگا آخر
پیار کی ایک نظر بھی ہوگی
میں خطا کار نظر ہوں لیکن
یہ خطا بار دگر بھی ہوگی
کتنے وہ اہل نظر ہیں جن کی
حسن معنی پہ نظر بھی ہوگی
جانے کیا حال ہمارا ہوگا
جب محبت کی نظر بھی ہوگی
ہم بھی ہوں گے ترا غم بھی ہوگا
شب بھی آئے گی سحر بھی ہوگی
جلوۂ غنچہ و گل بھی ہوگا
شوخیٔ برق و شرر بھی ہوگی
عزم بے باک سفر بھی ہوگا
راہ پر خوف و خطر بھی ہوگی
ہر اذیت ہی مقدر ہے اگر
دشت تو دشت ہے گھر بھی ہوگی
بچ رہی آج حوادث سے اگر
ہر کلی کل گل تر بھی ہوگی
رنج راحت میں بدل جائے گا
خیر در پردۂ شر بھی ہوگی
کچھ ستارے بھی درخشاں ہوں گے
کچھ مری گرد سفر بھی ہوگی