نہ آسماں سے شکایت نہ باغباں سے مجھے
نہ آسماں سے شکایت نہ باغباں سے مجھے
مرے جنوں نے نکالا ہے گلستاں سے مجھے
غم حبیب یہ احساں ترا نہ بھولوں گا
کہ بے نیاز کیا تو نے دو جہاں سے مجھے
فریب وہم و گماں ہے طلسم علم و یقیں
یہ درس خاص ملا سعیٔ رائیگاں سے مجھے
بڑے مزے سے گزرتی جو دل پہ بس ہوتا
نجات ملتی نہیں اس بلائے جاں سے مجھے
یہ دیر ہے نہ حرم اس کی بزم ہے راہیؔ
ازل سے ایک تعلق رہا ہے یاں سے مجھے