کیا بتاؤں مجھے کیا یاد ہے کیا یاد نہیں

کیا بتاؤں مجھے کیا یاد ہے کیا یاد نہیں
اتنے غم ہیں کہ غم ہوش ذرا یاد نہیں


اس گنہ گار محبت پہ خدا رحم کرے
جس کو کچھ تیری محبت کے سوا یاد نہیں


میری دیوانہ مزاجی پہ ہے الزام مگر
اپنی بیگانہ نگاہی کی ادا یاد نہیں


تم نے کچھ مجھ سے کہا تھا دم رخصت اک دن
اب خدا جانے تمہیں یاد ہے یا یاد نہیں


یا وہ عالم تھا کہ تھی سامنے منزل راہیؔ
یا یہ حالت ہے خود اپنا پتا یاد نہیں