مصیبت میں زمیں بھی کم نہیں ہے

مصیبت میں زمیں بھی کم نہیں ہے
سو بے چینی کہیں بھی کم نہیں ہے


تمہارے دل میں کیا ہے کچھ تو بولو
تمہارا کچھ نہیں بھی کم نہیں ہے


نہیں جھکتا کسی کے خوف سے دل
یہ ننھی سی جبیں بھی کم نہیں ہے


مشام جاں معطر اور دل بھی
تری خوشبو کہیں بھی کم نہیں ہے


اگرچہ بے یقینی بھی ہے تھوڑی
اسے مجھ پر یقیں بھی کم نہیں ہے


تمہیں ہے خوف ایٹم بم کا اتنا
یہ آہ آتشیں بھی کم نہیں ہے


چلو کہہ دو کہ ہے مجھ سے محبت
نہیں ہے تو نہیں بھی کم نہیں ہے


ستم سہہ کر بھی دل رہتا ہے راغبؔ
کہ وہ ظالم حسیں بھی کم نہیں ہے