مشکلوں میں پڑ گئے اپنا خدا کہہ کر تجھے

مشکلوں میں پڑ گئے اپنا خدا کہہ کر تجھے
تو ہی کہہ دے ہم پکاریں اور کیا کہہ کر تجھے


حال دل کہنے کی کیا اب بھی ضرورت رہ گئی
جب پکارا ہم نے اپنا دل ربا کہہ کر تجھے


جادۂ منزل پہ کھا کر ٹھوکریں ہوش آ گیا
کس قدر خوش تھے ہم اپنا رہنما کہہ کر تجھے


تیرے ہوتے تیری دنیا میں یہ بیداد و ستم
لوگ پچھتانے لگے اپنا خدا کہہ کر تجھے


اک زمانہ ہم سے غصہ ہے یہ ہم نے کیا کیا
سب کو چھوٹا کر دیا سب سے بڑا کہہ کر تجھے


ساری دنیا سے عداوت مول لے لی مفت میں
ہم نے اپنا دوست اپنا ہم نوا کہہ کر تجھے


آہ یہ اپنا سفینہ اور گرداب بلا
سخت شرمندہ ہوئے ہم ناخدا کہہ کر تجھے


کس طرح یہ ہم وفاداروں سے دیکھا جائے گا
لوگ محفل میں پکاریں بے وفا کہہ کر تجھے


اور بھی ان کی نگاہوں میں مہذب ہو گیا
کیا ملا سرشارؔ دل کا ماجرا کہہ کر تجھے