مجھے ان سے محبت ہو چلی ہے
مجھے ان سے محبت ہو چلی ہے
تڑپنا دل کی قسمت ہو چلی ہے
عداوت اور نفرت یا الٰہی
ترے بندوں کی فطرت ہو چلی ہے
حقیقت تھی کبھی توقیر آدم
مگر اب تو حکایت ہو چلی ہے
کرم یہ بھی ہے تیری بے رخی کا
مجھے اب خود سے نفرت ہو چلی ہے
عبادت کا صلہ ہیں حور و غلماں
عبادت بھی تجارت ہو چلی ہے
ہمیں پر ہے نگاہ قہر ان کی
ہمیں پر یہ عنایت ہو چلی ہے
مراسم خوب روؤں سے بڑھانا
دل ناداں کی عادت ہو چلی ہے
کرم ہونے لگا اہل ہوس پر
الٰہی کیا قیامت ہو چلی ہے
وفا پر تو نہ جانے کیا ہو صابرؔ
جفا ہی پر مسرتؔ ہو چلی ہے